Friday, April 1, 2016

Islam Ka Pas-e-Manzar Aik Nazar Main

وه ابتدا میں چار تهے
دارارقم میں 45 ھو گئے
شعب ابی طالب میں 82 هو گئے
هجرت کے وقت وه 115 هو گئے
تو غزوه بدر میں 313 تهے
پهر رفته رفته برهتے چلے گئے
صلح حدیبیه میں تعداد 1400 هوئی
تو فتح مکه پر 10 هزار تهے
پهر غزوه حنین میں 12 هزار هو گئے
غزوه تبوک میں 40 هزار تهے
خطبه حجته الوداع میں انکی تعداد 70 هزار سے ذیاده تهی
حضور اکرم صلی الله علیه وسلم کے وصال کے وقت یه سوا لاکھ تهے
عرصه 23 سال میں اس قدر افرادی قوت کسی اور مذھب کا اعجاز نہیں
یه امتیاز صرف اسلام کو هی حاصل هے
وه لوگ اسلام میں اس قدر گھل مل گئے تھے که وه خود اسلام نظر آتے تھے
مٹی کے بنے ھوئے مگر پرواز آسمان سے اوپر تھی
وه موت سے نہیں ڈرتے تھے بلکه موت ان سے ڈرتی تھی
زمانه انھیں نھیں بلکه وه زمانے کو مسخر کرتے تھے
بس
صحابه وه جن کا رب الله
صحابه وه جن کا مدرسه بیت الله
جنکے استاد رسول صلی الله علیه وسلم جن کانصاب کتاب الله
جنکا امتحان لینے والا خود الله
نتیجه
رضی الله عنه
صحابه خود
حزب الله
اللہ ہمیں بھی صحابہ رضی اللہ عنہ سا ایمان اور جذبہ عطا کرے
آمین

Saturday, March 26, 2016

ﺍﻟّﻮ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻋﺠﯿﺐ ﻭ ﻏﺮﯾﺐ ﺗﻮﮨﻤﺎﺕ

ﺍﻟّﻮ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻋﺠﯿﺐ ﻭ ﻏﺮﯾﺐ ﺗﻮﮨﻤﺎﺕ
---------------------------

ﺍﻟّﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﷲ ﮐﯽ ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﻣﺨﻠﻮﻗﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻭﺿﻊ ﻗﻄﻊ ، ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺞ ﺩﮬﺞ، ﺍﭘﻨﯽ ﺩﯾﻮﻣﺎﻻﺋﯽ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﺤﻮﺳﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﮯ۔ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﮐﺴﯽ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﻏﻠﻄﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﺳﮯ ’ ﺍﻟّﻮ ‘ ﮐﮯ ﻟﻘﺐ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﻣﻐﺮﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻮ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺫﮨﯿﻦ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﯾﻮﺭﭘﯽ ﺳﮯ ﺍﻧﭩﺮﻧﯿﺖ ﭘﺮ ﭼﯿﭧ ﮐﺮﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺍﻟﻮ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ You are Owl... ﻟﮑﮫ ﺩﯾﺎ۔ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍ ﮨﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﮭﯿﻨﮏ ﯾﻮ ﮐﺎ ﻣﺴﯿﺞ ﺑﮭﯿﺞ ﺩﯾﺎ۔ ﻣﻄﻠﺐ ﯾﻮﺭﭖ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻮ ﮐﻮﺳﻤﺠﮭﺪﺍﺭ ﺍﻭﺭ ﺫﮨﯿﻦ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺟﺎﻧﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺟﺒﮑﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﮞ ﺍﮐﺜﺮ ﺑﮯ ﻭﻗﻮﻓﯿﺎﮞ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﺍﻟﻮ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺁﺋﯿﮯ ﺁﺝ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻟﭽﺴﭗ 
ﻣﻌﻠﻮﻣﺎﺕ ﭘﯿﺞ ﮐﮯ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺟُﮍﯼ ﮐﭽﮫ ﺗﻮﮨﻤﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﺑﺘﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
 ۔ﮨﻨﺪﻭ ﻣﺬﮨﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﻟّﻮ ﮐﻮ ’ ﻟﮑﺸﻤﯽ ﺩﯾﻮﯼ ‘ ﮐﯽ ﺳﻮﺍﺭﯼ ﻣﺎﻧﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍُﺳﯽ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮭﮑﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔
 ۔ ’ ﺑﺮﻃﺎﻧﯿﮧ ‘ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﺣﺼﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﺍﻟّﻮ ﮐﮯ ﺑﻮﻟﻨﮯ ﯾﺎ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺭﻭﻧﮯ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﮐﻮﻣﻨﺤﻮﺱ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
 ۔ ﺟﻨﻮﺑﯽ ﺍﻓﺮﯾﻘﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﻟّﻮ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﮐﻮ ﻣﻮﺕ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
 ۔ ﮐﻨﺎﮈﺍ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﻦ ﺭﺍﺕ ﻟﮕﺎﺗﺎﺭﺍُﻟّﻮ ﮐﮯ ﺑﻮﻟﻨﮯ ﭘﺮ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﻣﻮﺕ ﯾﻘﯿﻨﯽ ﺳﻤﺠﮭﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔
 ۔ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﮐﮯ ﺟﻨﻮﺑﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺣﺼﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻟّﻮ ﮐﺎ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺎﻧﺎ ﻣﻨﺤﻮﺱ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
 ۔ ﭼﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﻟّﻮ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﻨﮯ ﭘﺮ ﭘﮍﻭﺳﯽ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﺳﻤﺠﮭﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔
 ۔ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻟّﻮ ﮐﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﮐﻮ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﻣﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺭﻭﻧﮯ ﺟﯿﺴﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﮐﻮ ﺑُﺮﯼ ﻋﻼﻣﺖ ﻣﺎﻧﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔
 ۔ ﺗﺮﮐﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻟّﻮ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﮐﻮ ﺗﻮ ﻣﻨﺤﻮﺱ ﮨﯽ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺳﻔﯿﺪ ﺍﻟّﻮ ﮐﻮ ﺳﻌﺪ ﻣﺎﻧﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
 ۔ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﺍﻟّﻮ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﻨﺎ ﺍﭼﮭﺎ ﺷُﮕُﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺩﯾﻮﺍﻟﯽ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺷﺤﺎﻟﯽ ﻻﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﺎﺩﻭ ﻣﻨﺘﺮ ﮐﺮﻧﮯ، ﺻﺤﺖ ﯾﺎﺑﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﻟّﻮﺅﮞ ﮐﯽ ﺑﻠﯽ ﭼﮍﮬﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﺧﺒﺎﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﺧﺒﺮﯾﮟ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮔﺰﺷﺘﮧ ﺩﯾﻮﺍﻟﯽ ﮐﮯ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ ’’ ﺍﯾﮏ ﺍﻟّﻮ ﺗﯿﺲ ﻻﮐﮫ ﮐﺎ ﺑﮑﺎ ‘‘ ۔ﻋﻘﻞ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﮬﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺗﯿﺲ ﻻﮐﮫ ﺭﻭﭘﮯ ﻏﺮﺑﺎﺀ ﭘﺮ ﺧﺮﭺ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺳﺎﻝ ﺑﮭﺮ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺑﮭﻼﺋﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﺳﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﮐﮫ ﺩﺭﺩ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺧﻮﺩ ﺍﻟّﻮ ﺑﻨﻨﮯ ﺳﮯ ﺑﭻ ﺟﺎﺗﮯ۔
ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻮ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﮐﭽﮫ ﯾﮧ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ
 ۔ ﺍُﻟّﻮ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﺎ ﮐﺎﺟﻞ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺩﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ۔
 ۔ ﺍﻟّﻮ ﮐﮯ ﻧﺎﺧُﻦ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﮔﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻧﺪﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺘﯽ۔
 ۔ ﺍﻟّﻮ ﮐﮯ ﮔﻮﺷﺖ ﮐﻮ ﺗﻌﻮﯾﺬ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ ﮔﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻧﺪﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﺎ ﮈﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺘﺎ۔
 ۔ ﺍﻟّﻮ ﮐﯽ ﭘﻮﺟﺎ ﺩﯾﻮﺍﻟﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﻟﮑﺸﻤﯽ ﺟﯽ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺑﮯ ﺣﺪ ﺩﻭﻟﺖ ﺑﺮﺳﺘﯽ ﮨﮯ۔
۔ ﺍﻟّﻮ ﮐﮯ ﭘﺮ ﮐﻮ ﺣﺴﺎﺏ ﮐﺘﺎﺏ ﮐﮯ ’ ﮐﮭﺎﺗﮯ ‘ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﻣﺎﻝ ﺩﻭﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﮐﺖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔
ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻟﭽﺴﭗ ﻣﻌﻠﻮﻣﺎﺕ ﭘﯿﺞ ﮐﮯ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺿﻤﻨﺎ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﭼﻠﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﻟﻮ ﺳﮯ ﺟﮍﮮ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻣﺤﺎﻭﺭﮮ ﺑﮭﯽ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﻦ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻮ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﯽ ﺑﺪﻧﺎﻡ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺟﯿﺴﮯ
ﺍﭘﻨﺎ ﺍﻟّﻮ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﮐﺮﻧﺎ۔ﺍﻟّﻮ ﺑﻨﺎﻧﺎ۔ ﺍﻟّﻮ ﺑﻨﻨﺎ۔ ﮐﺎﭨﮫ ﮐﺎ ﺍﻟّﻮ۔ﺍﻟّﻮ ﮐﯽ ﮨﻮﺷﯿﺎﺭﯼ۔ﺍﻟّﻮ ﮐﺎ ﭘﭩﮭﺎ۔ﺍﻟّﻮ ﮐﺎ ﮈﮬﮑّﻦ۔ﮐﮭﺎﭦ ﭘﮧ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺍﻟّﻮ۔ ۔ﺍﻟّﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﺎ۔ ’ ﺍﻟّﻮ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺩﯾﺪﮮ ﻧﭽﺎﻧﺎ۔ ( ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﺍﻟّﻮ ﺑﯿﭽﺎﺭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﮔﮭﻤﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻌﺬﻭﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺻﺮﻑ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ 270 ﮈﮔﺮﯼ ﺗﮏ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﮔﮭﻤﺎ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮫ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔ ) ﻭﻏﯿﺮﮦ۔
ﻣﻌﻠﻮﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﺤﺎﻭﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮﻥ ﺗﮭﮯ ﯾﻘﯿﻨﺎ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺍﻟﻮ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﮐﭽﮫ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﻌﻠﻮﻣﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻟﻮ ﺗﻮ ﺑﯿﭽﺎﺭﮦ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺳﺎﺩﮦ ﺑﮯ ﺿﺮﺭ ﺳﺎ ﭘﺮﻧﺪﮦ ﮨﮯ۔ﺷﺎﺋﺪ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﺠﯿﺐ ﺍﻟﺨﻠﻘﺖ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻋﺠﯿﺐ ﻭ ﻏﺮﯾﺐ ﺗﻮﮨﻤﺎﺕ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ۔

شہد کی مکھیوں سے منسوب چند حیرت انگیز حقائق

شہد کی مکھیوں سے منسوب چند حیرت انگیز حقائق

---------------------------------------------------------

اللہ تعالیٰ نے شہد میں ایسی بے بہا خصوصیات رکھی ہیں کہ جن کو دیکھ کر نہ صرف انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے بلکہ سائنس آج اتنی ترقی اور متعدد تجربات کے باوجود شہد تیار کرنے میں ناکام رہی ہے۔ آیئےاپنے دوستوں کو شہد اور ان کی مکھیوں سے جڑے کچھ حیرت انگیز حقائق کے بارے بتاتے ہیں۔
شہد اور مکھیوں کی خاصیتشہد کو نہ صرف کھانے کے بعد میٹھے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جب کہ مختلف ممالک میں اسے مختلف قسم کی بیماریوں کے توڑ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ شہد کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اگر شہد کی مکھی پورے قدرتی عمل سے شہد تیار کر لے تو پھر وہ 1000 سال بھی پڑا رہے تو نہ تو وہ خراب ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے ذائقے میں ذرا برابر بھی فرق آتا ہے جب کہ اس قسم کے شہد میں رکھی گئی کوئی چیز بھی خراب نہیں ہوتی۔ شہد کی مکھیوں کی ایک اور خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ دوسرے کیڑے مکوڑوں اور جانوروں کی طرح کبھی بھی آپس میں لڑتی نہیں ہیں بلکہ آپس میں محبت اور منظم طریقے سے رہتی ہیں۔
شہد کی طبی خصوصیاتشہد کو ہزاروں برس سے طبی فوائد کے لئے استعمال کیا جارہا ہے اور آج بھی بہت سے ممالک میں یہ روایت برقرار ہے۔ شہد کو گلے کی خراش دور کرنے، بدہضمی دور کرنے، گرمی دور کرنے کے علاوہ دیگر بیماریوں کے علاج کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ مغربی ممالک میں شہد کی مکھی کے ڈنگ سے جوڑوں کے درد اور سوجن کو دور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ شہد کا استعمال خون کی کمی، دمہ، گنجا پن، تھکاوٹ، سردرد، ہائی بلڈپریشر، کیڑے کا کاٹا، نیند کی کمی، ذہنی دباﺅ اور ٹی بی جیسے امراض میں بھی فائدہ مند ہے۔
شہد کی مکھیوں کا چھتہشہد کی مکھیاں جو چھتے بناتی ہیں ان میں 8 قسم کے خانے ہوتے ہیں جو مثلث سے لے کر 10 خانوں تک ہوتے ہیں۔ شہد کی مکھیوں کے چھتے میں صرف ایک 6 خانوں والی شکل ایسی ہے جس میں ایک ملی لیٹر کا بھی خلا نہیں ہوتا۔ شہد کی مکھی کے چھتے میں انڈوں، شہد، موم اور بچوں کے خانے الگ الگ ہوتے ہیں اور ہر خانہ دوسرے خانے سے مکمل طور پر علیحدہ ہوتا ہے۔
شہد کی مکھیوں کی اقسامایک تحقیق کے مطابق شہد کی مکھیاں اڑنے والے کیڑے ہیں۔ پاکستان میں 4 ڈومنا، پہاڑی، چھوٹی اور یورپی مکھیاں پائی جاتی ہیں۔ پہلی ڈومنا، پہاڑی اور چھوٹی مقامی مکھیاں ہیں جب کہ یورپی مکھی (ایپس میلیفرا) آسٹریلیا سے لائی گئی۔ سب سے اچھی مکھی یورپی مکھی ہوتی ہے کیونکہ یہ دوسری مکھیوں کے مقابلے میں زیادہ شہد پیدا کرتی ہے۔
پھولوں کا رس اور سفرشہد کا ایک چھوٹے چائے کا چمچ میں 5 ہزار پھولوں کا رس شامل ہوتا ہے جب کہ ایک بڑے چمچ میں 2 لاکھ پھولوں کا رس شامل ہوتا ہے۔ شہد کی مکھی آدھا کلو شہد بنانے کے لئے 35 لاکھ اڑانیں بھرتی ہے اور 50 ہزار کلو میٹر  کا سفر طے کرتی ہے۔ شہد کی مکھیاں عام طور 8 کا ہندسہ بنا تے ہوئے سفر کرتی ہیں لیکن شہد کی تیاری کے دوران یہ مختلف انداز سے سفر کرتی ہیں۔ گائیڈ مکھیاں انھیں راستہ بتاتی ہیں اور اس طرح یہ میلوں کا سفر با آسانی طے کر لیتی ہیں۔
شہد کی مکھیوں کے انڈےشہد کی مکھیاں بہت ہی منظم طریقے سے ایک معاشرے کی طرح رہتی ہیں اور اپنی ملکہ کے تابع ہوتی ہیں۔ شہد کی ملکہ مکھی روزانہ 15000 ہزار انڈے جب کہ ایک سیزن میں 25 لاکھ انڈے دیتی ہے۔
شہد کی تیاریشہد مادہ مکھیاں بناتی ہیں جس کے لئے تقریباً 30 ہزار کی فوج مقرر ہوتی ہے۔ مکھیوں کی ایک جماعت آس پاس اور دور دراز کے علاقوں میں شہد کے ذرائع دیکھ کر آتی ہے۔ شہد کے ذرائع دیکھ کر آنے والی مکھیاں مخصوص حرکات کے ذریعے سے ساتھی مکھیوں کو راستہ بتاتی ہیں کہ کس سمت میں کتنا سفر کرنا ہے۔
شہد کی مکھی جس راستے سے گرزتی ہے وہاں کے پھولوں کی خوشبو کو اپنی یاداشت میں محفوظ کر لیتی ہے اور اپنے پیٹ میں شہد جمع کر کے اسی یاداشت کے ذریعے ٹھکانے پر پہنچ جاتی ہے۔
جب مکھیاں چھتے کے پاس پہنچتی ہیں تو وہاں پر شہد کی کوالٹی چیک کرنے والی ٹیم کے اراکین موجود ہوتے ہیں، اور جو مکھی کوئی مضر صحت چیز اپنے ساتھ چھتے میں لے کر جانے کی کوشش کرتی ہے تو یہ ٹیم اس کے پر توڑ کر اسے نیچے پھینک دیتی ہے۔ اس طرح سے صرف خالص شہد ہی چھتے میں جمع ہوتا ہے جسے ہم با آسانی حاصل کر کے اپنی ضرورت کے مطابق استعمال میں لا سکتے ہیں۔
(تحریر سعید احمد)